پھر خلش کی اسی بھٹی میں جلانا نہ مجھے
میں اگر لوٹ بھی آیا تو بلانا نہ مجھے
اے روح شوق منازل کو چھپا کر رکھنا
واپسی کا ابھی رستہ بھی بتانا نہ مجھے
میں آ رہا ہوں تیرے پاس مگر وعدہ کر
آئینہ اب کے سرابوں کا دکھانا نہ مجھے
میں کسی یاد کے لمحے کا وجد ڈھونڈتا ہوں
ذرا کچھ دیر موسموں سے چرانا نہ مجھے
میں تم سے دور بھی جی لیتا تھا گھڑی دو گھڑی
یہ گئے وقت کی باتیں ہیں سنانا نہ مجھے
میری انا کو گورارا سہی تیری چوکھٹ
اب کسی اور کے قدموں میں گرانا نہ مجھے
میں ابھی ذات کی سچائیاں تو کہہ ڈالوں
ہاتھ سے اپنے ابھی زہر پلانا نہ مجھے
ٹوٹتے ہیں تو سنبھالے نہیں جاتے جاناں
اسقدر بھی حسین خواب دکھانا نہ مجھے
میں کسی روز وقت اوڑھ کے سو جاؤں گا
تم بہت شوخ ہو نٹ کھٹ ہو ستانا نہ مجھے
میں نے جو بات بتانی تھی بتا ڈالی ہے
اب کبھی ہجر کی دنیا میں پھرانا نہ مجھے