زلف سیہ سے وہ خوب کیے جفا جاتے ہیں
جکڑے ہوئے ہیں زلف زنجیر میں پھر بھی ہم کیے وفا جاتے ہیں
نہ پتہ ہے صبح کا نہ ہی شام کی خبر
ہر کھڑی انتظار کیے اس کا جاتے ہیں
رکھا ہوا ہے شاخ نے تاج بنا کے گل کو
صبا کے سامنے جھک کے کیے خطا جاتے ہیں
نہ رہی خواہش بہار کی تو کیوں ڈریں خزاں سے ہم
قفس میں رہے کر بھی اسی کی کیے پوجا جاتے ہیں
اس لیے روتا ہوں کہ بجھ جائے آتش دل
ہائے یہ آنسو تو اور آگ بھڑکا جاتے ہیں
ایک تو تیری جدائی ڈستی ہے رات دن
پوچھنے والے اور جان کھا جاتے ہیں
جاتے ہیں اس کی بزم میں حال دل کہنے کو
پر کیا کریں دیکھ کر سامنے اس کو کھبرا جاتے ہیں
ہم تو وہ لوگ ہیں ارشد نہ پوچھیے ہم سے آپ
بن کہے کچھ بھی اپنا حال سنا جاتے ہیں