زمانے والوں نے کیا کیا نہیں کہا مجھ سے
مگر چھڑا نہ سکا کوئی در ترا مجھ سے
یہ میری ضد تھی کہ ہر وقت پیار کرنا ہے
کچھ اس طرح سے ہوا وہ کبھی جدا مجھ سے
کہ رات دن تُو بھلا کیوں اداس رہتا ہے
کسی نے آج تک ایسے نہیں کہا مجھ سے
میں اپنی مستی میں گم ہوں کسی کی سنتا نہیں
ہر ایک شخص کو بس یہ گلہ رہا مجھ سے
مزاجِ یار نہ برہم کبھی نظر آۓ
تمام شہر ہی بیشک رہے خفا مجھ سے
خدا کو روز بھُلا بھی چکا منا بھی چکا
بس ایک بھول نہ پایا وہ آشنا مجھ سے
تمہارے بعد کئ ہم سفر ملے لیکن
کسی نے درد نہ میرا کبھی سنا مجھ سے
کچھ اس لئے بھی چلا تھا میں جاں گنوانے کو
نہ دیکھا کوئی گیا درد میں گھرا مجھ سے
میں اپنے غم سے جو باقر نہ ہو سکا فارغ
تو کیسے ہوتا کسی شخص کا بھلا مجھ سے