زمانے کو سوچیں گے زمانہ لگ جائے گا
خود میں ہی دیکھ لو کہیں ٹھکانہ مل جائے گا
اپنی ہی ذلت کی اوروں سے کیا تلافی
اپنے آپ سے پوچھو تو جرمانہ مل جائے گا
ساقی کی شکایت کہ اک گھوٹ اور چاہیے
کئی ایسی پریشان پلکیں مئخانہ مل جائے گا
درد، ہنگامے، آلاپ اور یہ دھرنے
فقط آواز کو سرورد آزمانہ مل جائے گا
میرے رنج کو سبھی عکس دھندلے دکھتے ہیں
تیری نظر کی پیمائش کو پئمانہ مل جائے گا
میری حسرتوں کی طبیعت میں بدمزاجی پھیل گئی
چل کر دیکھیں سنتوشؔ کہیں دواخانہ مل جائے گا