زمیں سے اُڑی‘ آسماں تک آئی
حقیقت سے نکل کر گماں تک آئی
زندگی بدل گئی سبھی رنگ اپنے
اُداسیاں چھوڑ کر ارماں تک آئی
جو پل رہی تھی مدتوں سے
دل سے ہوتی ہوئی زباں تک آئی
آنکھیں کُھل گئیں محبت سے میری
پہلے آرزو بنی‘اب بیاں تک آئی
بے چینی بڑھتی گئی روز بروز اپنی
پہلے دل پہ بنی‘اب جاں تک آئی
ہم سے کچھ نہ ہو سکا اِس پہ
محبت اُچھل کر گریباں تک آئی
عقل ممکن تو نہ رہی ہے اب
نبھائیں گے مگر‘جہاں تک آئی