جوار خلد سے یا کہکشاں سے اترا ہے
جو ایک نور کا ہالہ گماں سے اترا ہے
ہو نہ ہو آپ نے چھوا ہے کسی غنچے کو
فشار خون دل ناگہاں سے اترا ہے
یونہی پھرتے نہیں درماندگی میں اہل فلک
یہ تیرا روپ اسی کارواں سے اترا ہے
عشق کے سارے مراحل کی وہی منزل ہے
تمہاری یاد کا زینہ جہاں سے اترا ہے
تجھکو دیکھا تو گلابوں نے یہ سوال کیا
زمیں پہ یہ حسیں تارا کہاں سے اترا ہے