زندگانی سے مُکر جانے کو دل چاہتا ہے
بن کے اب خاک، بِکھر جانے کو دل چاہتا ہے
ہم جُدائی میں تری، کیسے جئیں گے جاناں
زخم ایسا ہے کہ مر جانے کو دل چاہتا ہے
میری آشفتہ سری کا بھی عجب ہے عالم
جو نہیں کرتے، وہ کر جانے کو دل چاہتا ہے
تھک گیا ہُوں میں خیالوں کا سفر کرتے ہُوئے
تیری یادوں میں ٹھہر جانے کو دل چاہتا ہے
بے خودی ایسی کہ خود پر بھی نہیں ہے قابو
حد ہے، حد سے بھی گُزر جانے کو دل چاہتا ہے
کِتنی دلکش ہیں یہ بھیگی ہوئیں آنکھیں تیری
بہتے دریا میں اُتر جانے کو دل چاہتا ہے
جانے یہ کونسی وادی ہے، زمیں پر جس کی
اپنے ہی خوں میں سنور جانے کو دل چاہتا ہے
آرزو اب ترے محکمؔ کو نہیں جینے کی
تیری آغوش میں مر جانے کو دل چاہتا ہے