عمر ملی دراز مجھے مگر پناہ نہ ملی
زندگی میں زندگی مجھے ہائے ذرا نہ ملی
بڑی دیر تک سوچا کیوں چھوڑا اُس نے
بڑی دیر تک مجھے کوئی وجہ نہ ملی
ہم غریبوں کے پاس ایک ہی ٹھکانہ تھا
دیارِ یار سے نکلے کہیں جگہ نہ ملی
راہے زیست کی تنہائیوں میں چھوڑ گیا
اور یہ کہتا رہا اُسے سزا نہ ملی
ملک طبیب میں مرتا رہا تڑپتا رہا میں
ماہر ہر مرض سے مجھے دوا نہ ملی
شاید خدا کے بھی اختیار میں نہیں وہ
ہاتھ اُٹھا کے اور سر جھکا نہ ملی
نہال غم ملا درد ملا خزائیں ملیں
جس کی حسرت تھی وہ بیوفا نہ ملی