زندگی میں میری کوئی درد کا درماں نہیں ہے
بھری دنیا میں جینے کا کوئی ساماں نہیں ہے
اِس اُداسی نے ہی اب تلک سنبھال رکھا ہے
دشمن میری بہاریں ہے کوئی خزاں نہیں ہے
دل کی نگری میں عجب لوٹ مچا رکھی ہے
سب نے یہ سوچکر کہ اِسکا نگہباں نہیں ہے
میری اشکوں کا سبب چاہیے تو سن لیجیے
معاملے یہ وصل کے ہیں غم ِ ہجراں نہیں ہے
میں کیسے دے دوں رضا رخصت اُس کو
وہ تو دل کا مکیں ہے، کوئی مہماں نہیں ہے