مفاد پرستوں سے ہونا یوُں وابستہ تیرا
بدل نہ ڈالے ایمان تیرا توڑ نہ ڈالے وعدہ تیرا
آنکھوں کے زینے سے اکثر ہوتا تھا تیرا آنا جانا
باندھ دیئےکس نے پنکھ تیرے کاٹ دیا کس نے رستہ تیرا
تجھ سے ملے تجھ کو دیکھے اک عرصہ ہوا ہے جان جگر
پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں مجھ سے نام تیرا پتہ تیرا
شاید تیری آنا کے رخت کھل جاہیں اور تو لوٹ آئے
اسی امید پر دیکھتا ہوں شام و سحر رستہ تیرا
کر دیئے منقطع کیوں سلسلے چھٹیوں کے مجھ سے
اب فون پر رہتا ہے ہر وقت کس سے رابطہ تیرا
یادوں کے لیے کافی ہے جو دیا تھا توُ نے ناز سے
دیکھنا کیسے سمنبھال رکھا ہے پیپل کا پتہ تیرا
دل میں رہنے والے جانے سے پہلے اتنا ضرور سوچنا
کرے گا کیا تیرے بعد گل تیرا،زیب تیرا، یہ زیبا تیرا