زیر لب جب وہ مسکرانے لگے
یوں لگا ہم قریب آنے لگے
جب اداؤں سے وہ منا نہ سکے
آ کے پیچھے سے گدگدانے لگے
سیکھے گر ہم سے آزمانے کے
پھر ہمیں پر وہ آزمانے لگے
علم پھیلا تو پھیلی خوش حالی
بیٹے بیٹی سبھی کمانے لگے
اس نے رسما جو حال پوچھ لیا
اپنی اپنی سبھی سنانے لگے
ڈالی ہم پر بھی غائرانہ نظر
مل کے غیروں سے جب وہ جانے لگے
دوریاں دور ہو رہی ہیں حسن
اب تو وہ گھر بھی آنے جانے لگے