ساتھ ہوں تیرے،کہاں تجھ سے جدا بیٹھی ہوں
اوڑھ کر میں تری یادوں کی قبا بیٹھی ہوں
اپنی پوشاک لگا یار مری آنکھوں سے
میں ترے ہجر میں بینائی گنوا بیٹھی ہوں
آپ اب بھی نہیں آئیں گے مرے حصے میں؟
دیکھیے اب تو میں خود کو بھی بھلا بیٹھی ہوں
وہ فسانہ جو کسی کو بھی سنانے کا نہ تھا
وجد میں آ کے تجھے وہ بھی سنا بیٹھی ہوں
اے شہِ عشق بتا ، کوئی تلافی ہے کیا ؟
بھولے سے نقشِ رخِ یار بھلا بیٹھی ہوں