سارے فتنے تھے قاتل نظر کے
ٹکڑے ٹکڑے ہوۓ ہیں جگر کے
اور کس کو یہاں اپنا کہتے
جتنے دشمن ملے اپنے گھر کے
نام تیرا ہی سب پر لکھا تھا
جتنے ٹکڑے ہوئے تھے جگر کے
یاد آتا ہے اس کا وہ چہرہ
وقت رخصت جو دیکھا ٹھہر کے
ایک اک کر بچھڑنے لگے ہیں
ہم سے ساتھی سہانے سفر کے
یاد پھر آگئی آج ماں کی
رو دئیے آج پھر آنکھیں بھر کے
عمر پیری میں یاد آتے اکثر
ہم کو قصے پرانے دہر کے
جی نہیں لگتا دنیا میں تنظیم
تو چلیں دیکھیں جاں سے گزر کے