سبق بھولا ہوا جو یاد کرنا ہے
کٹھن بھی ہو مگر ہر چند کرنا ہے
شعوری یا رہے اب بے شعوری بھی
وفاداری رہے پر کچھ تو باقی بھی
جہالت ختم گر بھی ہو سکے ہم سے
نظریہ تنگ مٹ بھی جو سکے ہم سے
تصور میں سمائے ہوئے سے رہتے
تخیل میں بھی چھائے ہوئے سے رہتے
نہ آساں ہو سکے ہرگز نہ ٹل جائے
بنا ان کے رہا جائے نہ بن پائے
نکل جائے جو چھوڑا جائے بھی تم سے
زخم کھائے جو پکڑا جائے بھی تم سے
بڑی مشکل میں ہوں ناصر جیوں کیسے
سمجھ کچھ بھی نہیں آتا کہوں کیسے