تو محیط ہے میری سوچ کا ۔ توہی ارض ہے تو ہی طول ہے
تو مدار نہ ہو اگر میرا ۔ میری ہر تمنا فضول ہے
میرے ہم نفس تیرےدم سے ہے میرے ماہ و سال کی رونقیں
میری زندگی میری شاعری سبھی تیرے قدموں کی دھول ہے
میری سانس تو میری روح تو میرا خواب تو میری چاہ تو
تیرے ساتھ اجالوں کی آس میں مجھے تیرگی بھی قبول ہے
میری جان تیرے وجود سے کبھی ہٹ کے دیکھا نہ آنکھ نے
تو کلی کلی تو مہک مہک تو ہی رنگ ہے توہی پھول ہے