سبھی ساخت حالاتوں سے اب بھی انکار ہے سبھی کو
پھر کون سے وہ لمحے جن کا رہا انتظار ہے سبھی کو
جنم کی مٹی میں کوئی مڈبھیڑ نہیں ہوتی مگر
سکھا دیتا ہے جگت بازی یہ سنسار ہے سبھی کو
تنہائی پاکے کوئی الجھن کی نیند سوگیا تھا
کہ جگتی آنکھوں میں اب بھی خمار ہے سبھی کو
وہ پتھر تراشکے بھی خدا بنادیتے ہیں لیکن
ہماری محبت پرستی پر اعتراض ہے سبھی کو
تہمت ہی صحیح بدگوئی یہاں کون کرتا ہے
عشق کے دنگل میں مل گیا قرار ہے سبھی کو
حدوں میں رہہ کر تم جتنے آزار ہیں جئ لو
آخر اک دن تو چلنا اُس پار ہے سبھی کو