سبھی لوگ مل کر تو خوب سرائی کرتے ہیں
بہت کم ہیں لوگ جو پارسائی کرتے ہیں
واقفکاری تو اپنے آپ سے بھی نہ پاسکے
جہاں بیٹھے وہاں زمانے کی شناسائی کرتے ہیں
کبھی اس ناخوشی کا بھی خلاصہ کرلو کہ
بدستوُر کہاں کہاں بے اعتنائی کرتے ہیں
ہمیں تو اپنے حال کی تفسیری سوجھی ہے
وہ اپنے رنجشوں کی کہاں رسائی کرتے ہیں
آؤ کہ اپنے کچھ خیال تول کر دیکھیں
کہ حسب معمول ہم کہاں کہاں آشنائی کرتے ہیں
اب یہ رونقیں شفا بخش نہیں رہی سنتوش
چلو سنسان گلیوں سے آج بدائی کرتے ہیں