سب نے اِنسان کو معبُود بنا رکھا ہے
اور سب کہتے ہیں اِنسان میں کیا رکھا ہے
یُوں بظاہر تو دِیا میں نے بُجھا رکھا ہے
درد نے دل میں الاؤ سا لگا رکھا ہے
منصفو! کُچھ تو کہو، کیوں سرِ بازارِ حیات
مُجھ کو اِحساس نے سُولی پہ چڑھا رکھا ہے
جس کے ہر لفظ سے ہو حشرِ صداقت پیدا
میں نے وہ گِیت قیامت پہ اُٹھا رکھا ہے
کِتنا مجبُور ہُوں میں، حُسنِ نظر کے ہاتھوں
مُجھ کو ہر شخص نے دِیوانہ بنا رکھا ہے
ہاں، میں خاموش محبت کا بھرم رکھ نہ سکا
ہاں، خُدا کو تو تیرا نام بتا رکھا ہے
اور تو کوئی چمکتی ہُوئی شے، پاس نہ تھی
تیرے وعدے کا دِیا راہ میں لا رکھا ہے
لاکھ فرزانگیاں میرے جنُوں کے قُرباں
میں نے لُٹ کر بھی غمِ عشق بچا رکھا ہے
میری اُمید کی پتھرا گئیں آنکھیں، لیکن
مَیں نے اِس لاش کو سینے سے لگا رکھا ہے
گُھومتی پِھرتی ہیں لیلائیں بگولوں کی طرح
قیس نے دَشت میں اِک شہر بسا رکھا ہے
حُسنِ تخلیق کی دھرتی میں جڑیں کیا پھیلیں
تم نے اِنساں کو گملے میں سجا رکھا ہے