اپنا جسے کہیں کوئی ایسانصیب ہو
اس راستے میں شہر تمنا نصیب ہو
راہ وفا میں قطرۂ شبنم بھی ہے بہت
جس سے بجھے گی پیاس وہ دریا نصیب ہو
جب زندگی یہ درد کی موجوں کی زد میں تھی
دریا کے بیچ بیچ کنارا نصیب ہو
اے اہل دل خموش کہ یہ جائے صبر ہے
دکھ تو یونہی رہیں گے مسیحا نصیب ہو
الزام میں نے قادرِ مطلق پہ دھڑ دیا
خود اپنے ہاتھ سے ہے بگاڑا نصیب ہو
وہ جاتے جاتے جب مجھے تنہائی دے گیا
اک اجنبی کا مجھ کو سہارا نصیب ہو
مجھ کو بھی آج اپنے مقدر پہ رشک ہے
جو ساتھ تیرا مجھ کو دوبارہ نصیب ہو
سجدہ شکر کروں گی محبت کے سامنے
یہ پیار تیرا سارے کا سارا نصیب ہو
اس آسمان زیست سے شکوہ ہے برملا
مانگا جو چاند میں نے تو تارا نصیب ہو
جانے وہ لوگ کون ہیں وشمہ جہاں میں
اس زندگی میں جن کا ستارہ نصیب ہو