سب کچھ ملا مجھے خدا کی خدائی میں
بس وہ نہ ملا رو رہا ہوں جس کی جدائی میں
دور ہے مجھ سے پھر بھی چھپا ہے میرے دل کی گہرائی میں
وہ بھی دیدار ء حسرت رکھتی ہے پر مجبور ہے دنیا کی بےبہائی میں
اُس کی یادوں سے فرصت نہیں ملتی اس لئے اکثر رہتا ہوں تنہائی میں
جب بھی میں سونچھتا ہوں اُس کے بارے میں فہیم
نہ جانے کیوں وہ مجھے نظر آتی ہے میری اپنی پرچائی میں