ستم گر میں اک غم گساری بھی ہے
اُسے میری جاں خود سے پیاری بھی ہے
تجھے آج تک تو خبر ہی نہ تھی
ترا ہم سفر اک لکھاری بھی ہے
مرا ساتھ دینے کی کوشش کرو
مری ہر خوشی اب تمہاری بھی ہے
کوئی اور کھینچے ہے اپنی طرف
کسی اور کی ذمہ داری بھی ہے
محبت کی تعلیم دیتا ہوں میں
یہ مضمون اک اختیاری بھی ہے
فخر پیار سے باز آجاؤ تم
مزہ ہے مگر اس میں خواری بھی ہے