میں خود سے اکثر یہ پوچھتا ہوں
پہیلیا ں خود سے بوجھتا ہوں
سراغ اپنا ہی کھوجتا ہوں
تنہائیوں میں یہ سوچتا ہوں
قصور دل کا ہے یا نظر کا
قصور شب کا ہے یا سحر کا
قصور آندھی کا یا شجر کا
قصور محنت کا یا ثمر کا
قصور میرے مزاج کا ہے
یا بے مروت سماج کا ہے
گدا کے کچے مکان کا ہے
یا شیش محلوں کی شان کا ہے
قصور اسکے شباب کا ہے
یا عشق اس کے عذاب کا ہے
کہ جس میں عرصے سے جل رہا ہوں
میں دھوپ میں تنہاء چل رہا ہوں
سزا ملی تو کسے ملے گی
اسے ملی یا مجھے ملے گی