سرخ آنکھوں سے عیاں دیدار کی مستی ہوئی
اور ان نظروں کی مستی پر فدا ہستی ہوئی
میں نے اس کو ایک پل کے واسطے سوچا تھا بس
ایک دم سے آگئی وہ سامنے ہستی ہوئی
جذبہ الفت ہوا جاتا ہے مہنگا دن بدن
بے وفائی عام ہے کیونکہ بڑی سستی ہوئی
مجھ کو لگتے ہیں سبھی انسان جیسے پتلیاں
جس میں اہل دل نہ ہوں وہ بھی کوئی بستی ہوئی
پھیلتا جاتا ہے نس نس میں یہ ہجراں کا سراب
آئی ہے ناگن جدائی کی مجھے ڈستی ہوئی
لے اڑے ہو یہ جو تم مجھ کو ستاروں کی طرف
اس بلندی کے مقدر میں اگر پستی ہوئی
میں تو وہ کہتی ہوں عنبر کہتا ہے جو میرا دل
میری حیثیت ہے کیا اور کیا میری ہستی ہوئی