سر پر جو تیری چاہتوں کا سائبان ہے
وہ آج میری خواہشوں کا امتحان ہے
بل کھا رہی ہے پھر سے سمندر میں زندگی
کشتی کے ساتھ ڈوبتا اک بادبان ہے
کھویا ہوا ہے میں نے جو اس ذات کا سکوں
اک روز مل ہی جائے گا مجھ کو گمان ہے
ہے مجھ کو وطن اب بھی تری آبرو عزیز
تو میری سر زمیں ہے مرا گلستان ہے
ہے کوئی آج جو مجھے پھر سے سمیٹ لے
بکھری ہوئی ہوا میں مری داستان ہے
اس زندگی کا آج نشانہ خطا نہ ہو
ہاتھوں میں اپنے زہر کا تیر و کمان ہے
ہجرت کی کالی رات میں ایمان ہے مرا
لوٹے گا وشمہ وہ جو مرا ہم زبان ہے