بجلی سی لپک جاتی ہے بیاں سنتے ہیں رہتے
جب پردہ اٹھا کرتا ہے وہ منظر نہیں دیکھا
تیرے رعب حسن مغرور کا ہے انداز بیاں اور
جو تجھ کو فتح کر لے سکندر نہیں دیکھا
ان حسیں آنکھوں میں میں دور تک اترا
منزل کا پتا نام نشاں ستمگر نہیں دیکھا
محفل میں بھری چھو کے تیرا ہاتھ ہی گزرے
ساحل تک ہی پہنچے ہیں سمندر نہیں دیکھا
اظہر ہے وہیں کوچہ جاناں میں شب روز
باہر سے نظر رکھے ہے اندر نہیں دیکھا