سمٹارہا چاندنی رات میں وہ میرے پندار میں
تو ایسے ٹوٹ کے بکھرا تھا میرایار کے بس
کسی نے نہ اٹھائی کرچیا ں اس کی
میں ہی تھی اس کی غم خوار کے بس
اس چشم گریہ سے ڈوبتے ابھرتے موتی
بہہ گئے میرے دل کے درودیوار کے بس
محبت کا قرینہ نہ تھا اسے بھی، مجھے بھی
ہو ئے جارہے تھےایسے نڈھال کے بس
رفاقتوں کے جگنو جلے جارہے تھے چشم ناز میں
ہوتا رہا ایسا اظہار کے بس
مٹا دوں اس کو یا خود مٹ جاؤں اس میں
ایسا ہی تھا اس کا اقرار کے بس
یاد رہتا ہے اس چاند رات کا نصاب جاناں کچھ یوں
مجھ میں اس کی، اس کی مجھ میں چاہتو ں کا ایسا شما ر کے بس
وہی ٹھہر چکی ہے زندگی میری
جہاںاس کی آنکھ میں ہوئی تھی اک بار ایسی
گرفتار کہ بس