سنو اسکارف پہنے لڑکی
سنو یہاں سے اٹھ جاؤ
جس بنچ پے آج بیٹھی ہو
اس پے کچھ برسوں پیچھے
میں بھی کبھی بیٹھا تھا
کنٹین کا گرم کپ تھامے
اس کو میں نے سوچا تھا
جب چھت سے یاد ٹپکتی تھی
جب یہ جما ہوا دسمبر
جم گیا تھا کچھ اور بھی
سنو اسکارف پہنے لڑکی
جس بنچ پے آج بیٹھی ہو
اس پے کچھ صدیوں پیچھے
ہم بھی کبھی بیٹھے تھے
وہ جب دسمبر نہ جمتا تھا
وہ جب سورج نکلتا تھا
وہ جب کنٹین کا گرم کپ تھا مے
اسکا سرد ہاتھ تھاما تھا
جب یہ لمبی بھاری زندگی
لگتی تھی مجھ کو چھوٹی
سنو اسکارف پہنے لڑکی
سنو یہاں سے اٹھ جاؤ
جس بنچ پے تم ہو بیٹھی
وہ جگہ ہے محبت والوں کی
محبت کا یہ لمبا بکھیڑا
تمہاری عمر میں صہیح نہیں ہے
سنو نہیں چاہتا میں کہ
آج سے کچھ برسوں آگے
تم بھی گرم کپ تھامے
یاد کرو ٹپکتی یادیں
اور یہ جمتا جاتا دسمبر
جم جائے کچھ اور بھی
سنو اسکارف پہنے لڑکی