سنو
لوٹ آؤ ناں
روح میں درد ناسور کی طرح بس گیا ہے
نا رسا ئی کا دکھ اب بو جھ لگتا ہے
کتنے درما ں کروں
کتنے ارماں کروں
ان زخموں پر جو تیرے ہی عطا کردہ ہیں
کتنے مرہم کروں
دن ہے کہ کٹتا نہیں
دل ہے کہ سنبھلتا نہیں
ہجر کے اس دشت میں وصل کی کوئی خبر نہیں
اک لمحہ بھی اب صدیوں پہ بھاری لگے
یہ زندگی بس اب تنہائی لگے
قافلے زرد رتوں کے جاتے نہیں
راہ تکتی ہو ں جن کی وہ آتے نہیں
ہجر ہی ہجر ہے
کرب ہی کرب ہے
زندگی میں تم بن
درد کے موسم ٹھہر گئے ہیں
سنو
لوٹ آؤ ناں
کہ اب سانسوں کا تسلسل ٹوٹ رہا ہے