سنگدل شہر سے جب کوئی سوالی آئے
بھیک میں لے کے وہ ماں بہن کی گالی آئے
روز اجڑا ہوا گلشن یہ دعا کرتا ہے
میرے آنگن میں کبھی کوئی تو مالی آئے
مہرباں کوئی اسیروں ملے ایسا بھی
قیدِ زِنداں سے جو چپ چاپ نکالی آئے
میری میت پہ سبھی غیر تھے رونے والے
میرے اپنے تو بجاتے ہوۓ تالی آئے
آسماں چھونے لگے آج پھر ان کے جذبات
چوم دیوانے ترے در کی جو جالی آئے
قوم پھر آج ہے سوئی ہوئی غفلت کی نیند
کاش پھر میر یا اقبال یا حالی آئے
مجھ گنہگار پہ مالک کی عطا ہے باقرؔ
میرے حصے میں سدا شعر مثالی آئے