سنگھار زہرِ ہلاہل ہے سادگی کیلئے
کہ عشق میں ہے یہ ہی حُسن ساحری کیلئے
ہزار چاہنے والے بھی اجنبی سے لگیں
وہ دل میں ہوک اٹھی ایک اجنبی کیلئے
یہ وہ زمانہ نہیں جب فقط جنوں تھا اہم
کہ اب خرد بھی ضروری ہے عاشقی کیلئے
نشہ برا ہے مگر اسقدر برا بھی نہیں
کہ اب خمار بھی لازم ہے زندگی کیلئے
ہے میرے دامنِ دلداریءجنون میں کیا
ہے کچھ خدائی بھی درکار بندگی کیلئے
جو کرتے آئے ہیں دانشوری کی باتیں وہ
جنون مانگتے پھرتے ہیں شاعری کیلئے
میں تنہا سہ لوں یہ اچھا ہے دکُھ نہ بانٹوں گا
کسی کی آنکھ کروں نم بس اک خوشی کیلئے
چراغِ عالمِ افروز کا کریں گے کیا
بس اک دیا ہے بہت گھر میں روشنی کیلئے
ابھی تو خود سے بھی واقف نہیں ہوا ہوں میں
اک عمر گزری بھٹکتا ہوں آگہی کیلئے
دکھائی دیں گل و گلزار کاغزی سے ندیم
جو آج پاس نہیں تم شگفتگی کیلئے