یاد ہے مجھ کوجو اس نے کہا تھا مجھ سے
کیسے اظہار کیا تھا نہیں بھولوں گی کبھی
دھیرے سے اس نے کہا کاش کبھی ایسا بھی ہو
میں تجھ میں زندہ رہوں
تیرے "سنگھار"کا حصہ بن کر
تو بڑے ناز سے بڑے چاؤ کے ساتھ
ہر اک دن کا آغاز کرتی مجھ سے
کاش....میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن بن کر
بے نیازی سے یونہی جھولتا ہاتھوں میں ترے
بات کرتے ہوئے تو یونہی کھیلتی مجھ سے
اپنی سکھیوں میں تو میری نمائش کرتی
کاش..............................
کاش ہوتا میں تیرے کان کی بالی جو کبھی
میں ترے لمس کو محسوس تو کرتا اکثر
تیری لو کو چھوتا بے خیالی سے بارہا
اور کبھی....................
تیری لٹ جو الجھ جاتی مجھ میں
تو بڑے پیار سے سلجھاتی اس کو
میں رشک سے تیرے گالوں پہ جھومتا رہتا
کاش .....................
کاش ہوتا میں گردن میں پڑے لاکٹ کی طرح
تیری سانسوں کو میں بھی سن پاتا
تیری دھڑکن سے آشنا ہوتا
میرے آتے ہی جو بڑھ جاتی تھی کبھی
کاش میں تیری نازک سی انگلی
کی انگوٹھی بن کر
پیار کی ایک حسیں نشانی کی طرح
پاس رہتا تیری ذات کا حصہ بن کر
کاش میں ...............
تیرے گداز پاؤں کی پائل ہوتا
تو بڑے ناز سے اٹھلاتی ہوئ چلتی پھر
اور ............
دبے پاؤں تو بڑھتی اچانک جو کہیں
شور کرتا تیرے قدموں کو روک دیتا وہیں
لیکن...........................؟
ایسا کچھ تو نہ ہوا
تو نے سمجھا ہی نہیں کبھی
پیار کی سچائ کو
گرادیا مجھے آنکھ کا بنا کر آنسو
میں جانتا ہوں پر آج نہیں تو پھر کبھی
تو مجھے یاد کرے گی اکثر
تنہائیاں جب ڈسیں گیں تجھ کو
وسوسے تجھ کو ہر گام ڈرائیں گے جب
تو گھبرا کر مجھے آواز تو دے گی کبھی
پر مری جان....................
اس وقت میں نہیں ہوں گا
تیری آواز پلٹ آئے گی
دیواروں سے ٹکراتے ہوئے
زخم بن کر ترے دل سے رستا رہوں گا ہردم
اب جا رہا ہوں................
واپس تو نہیں آؤں گا میں
کاش کاش تو یہ بات پہلے ہی سمجھ لیتی پر
یہ بھی تقدیر کا ہے کوئ فیصلہ شاید
الوداع.......الوداع.......الوداع.......
یاد رکھنا مجھے اپنی دعاؤں میں
مری جان میرا الوداع لینا
میری جان الوداع کہنا
Love is end with die