سنہری چشمہ لگاتی تھی، آستیں چڑھایا کرتی تھی
Poet: AB By: Anila, Karachi
سنہری چشمہ لگاتی تھی، آستیں چڑھایا کرتی تھی
وہ لڑکی کالج سرخ جوڑے میں آیا کرتی تھی
مجھے یاد ہے اب بھی وہ شوخ نظر کا چونچلا پن
وہ آنکھ مار کے ہنستی، پھر صاف مکر جایا کرتی تھی
ہاں اس واقعےکے بعد اکثر وہ نازنیں لڑکی
مسکراتی تھی مگر زیادہ شرمایا کرتی تھی
محال تھا اس کے لیے لیکچر میں خاموش بیٹھنا
یا تو خود ہنستی تھی یا مجھے ہنسایا کرتی تھی
میں جب بھی پوچھتا اس سے پیپر ہوا ہے کیسا
بڑے غصے سے دانتوں میں انگلی کو دبایا کرتی تھی
اور تو کچھ اردو ادب سے واقفیت نہ تھی اسے
ہاں مگر نصیر کی ایک غزل اکثر وہ سنایا کرتی تھی
باقیوں کو تو گلے کا آنچل بھی بھاری لگتا تھا
اک وہی تھی صرف جو ہنس کے عبایا کرتی تھی
یوں تو کہتی تھی مجھے سپلی ہی آئے گی
رزلٹ میں لیکن وہ ٹاپ کر جایا کرتی تھی
محبت مجھ سے پہلے بھی اسے کسی سے تھی شاید
میں جانتا تھا مگر بخوبی وہ چھپایا کرتی تھی
وہ چودھویں کا چاند تھی جاڑے کی جوانی تھی
گہرے پانیوں میں اکثر وہ جھلملایا کرتی تھی
مجھے چائے سے سخت نفرت تھی اور وہ لڑکی
ضد کرتی تھی مجھے چائے ہی پلایا کرتی تھی
یوں تو نام بگاڑنے سے سخت چڑھ تھی اسے
میرا نام کچھ اور تھا مگر وہ ساقی بلایا کرتی تھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






