سنہری چشمہ لگاتی تھی، آستیں چڑھایا کرتی تھی
وہ لڑکی کالج سرخ جوڑے میں آیا کرتی تھی
مجھے یاد ہے اب بھی وہ شوخ نظر کا چونچلا پن
وہ آنکھ مار کے ہنستی، پھر صاف مکر جایا کرتی تھی
ہاں اس واقعےکے بعد اکثر وہ نازنیں لڑکی
مسکراتی تھی مگر زیادہ شرمایا کرتی تھی
محال تھا اس کے لیے لیکچر میں خاموش بیٹھنا
یا تو خود ہنستی تھی یا مجھے ہنسایا کرتی تھی
میں جب بھی پوچھتا اس سے پیپر ہوا ہے کیسا
بڑے غصے سے دانتوں میں انگلی کو دبایا کرتی تھی
اور تو کچھ اردو ادب سے واقفیت نہ تھی اسے
ہاں مگر نصیر کی ایک غزل اکثر وہ سنایا کرتی تھی
باقیوں کو تو گلے کا آنچل بھی بھاری لگتا تھا
اک وہی تھی صرف جو ہنس کے عبایا کرتی تھی
یوں تو کہتی تھی مجھے سپلی ہی آئے گی
رزلٹ میں لیکن وہ ٹاپ کر جایا کرتی تھی
محبت مجھ سے پہلے بھی اسے کسی سے تھی شاید
میں جانتا تھا مگر بخوبی وہ چھپایا کرتی تھی
وہ چودھویں کا چاند تھی جاڑے کی جوانی تھی
گہرے پانیوں میں اکثر وہ جھلملایا کرتی تھی
مجھے چائے سے سخت نفرت تھی اور وہ لڑکی
ضد کرتی تھی مجھے چائے ہی پلایا کرتی تھی
یوں تو نام بگاڑنے سے سخت چڑھ تھی اسے
میرا نام کچھ اور تھا مگر وہ ساقی بلایا کرتی تھی