بے نام منزل پر چھو ڑ کر، جو دی مجھے! اب خود کو وہ سزا کیوں نہیں دیتے
میری ساری نشانیاں ا ور خط وہ سارے، جلا کیوں نہیں دیتے
یادوں کے عذاب نے ٹھرا دیا غم کا قافلہ اس دل کے اندر
چھن جائے اب تو یہ حافظ میرا ! ایسی دعا کیوں نہیں دیتے
آنکھوں سے میرے تیرگی! پیروں سے زخم سفر جاتا ہی نہیں
جھیلتی ہے محبت جن کے لیے یہ سب! وہ لوگ وفا کیوں نہیں دیتے
جب لکھ دیا نصیب میں تم نے فراق! تو پھر کس منزل کی بات
جہاں سے بچھڑنا ہے محبت کا قافلہ !وہ چوراہا دکھا کیوں نہیں دیتے
دے کر بے بسی اور بے چار گی نکل جاتے ہیں یہ مجبور مصلحت اندیش
اے خدا! ایسے بے ضمیر اور سوئے ہوئے انساں کو جگا کیوں نہیں دیتے