سونے کی کوششیں تو بہت کی گئیں مگر
کیا کیجئے جو نیند سے جھگڑا ہو رات بھر
میں نے خود اپنا سایہ ہی بانہوں میں بھر لیا
اس کا خمار چھایا تھا مجھ پہ کچھ اس قدر
آنکھوں میں چند خواب تھے اور دل میں کچھ امید
جلتا رہا میں آگ کی مانند عمر بھر
کیوں کوئی اس پے ڈالے نظر احترام کی
کہلائے علم و فن میں جو یکتا نہ معتبر
پل میں تمام ہو گیا قصہ حیات کا
اس کی نگاہ مجھ پہ رہی اتنی مختصر
دشواریوں سے زندگی آساں ہوئی مری
دشواریوں کا خوف گیا ذہن سے اتر
ہم نے سخن میں کوئی اضافہ نہیں کیا
گیسو غزل کے صرف سنوارے ہیں عمر بھر
علم و ہنر ملے ہیں مگر تیرے سامنے
پہلے بھی بے ہنر تھے امنؔ اب بھی بے ہنر