اک حرف ناتواں ہے کہیں بھی تو چھا گئے
سوچا تھا دل کا حال کسی کو سنا گئے
بیٹھے ہیں انتظار میں بے چینیاں لیے
شاید وہ لوٹ آئیں وہ نظریں چُرا گۓ
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
تم ہی کہو کہ زیست کو کیوں نہ سجا گۓ
اک درد ہے جو روح کو رکھتا ہے مضطرب
اس درد لا دوا کو بلا کیوں پلا گۓ
اوروں کی طرح تم بھی تو کچھ غیر کم نہیں
اپنا کہیں تو کیسے ،تمھیں کیوں بھلا گئے
اچھا ہے دل کو ایسے ہی بہلا لیا کریں
ہم بے رخی کو پیار کی کوئی ادا گئے
سنتا ہے دیکھتا ہے نہ آہوں کو وشمہ جی
رستہ بدل کے چلنے کی عادت بتا گئے