سوچا تھا چلو لکھوں اس کے ذکر سے ہٹ کر ۔۔۔۔
Poet: امل الایمان By: Aqsa, Karachiسوچا تھا چلو لکھوں اس کے ذکر سے ہٹ کر
اپنے گھر کے کمرے کے چھوٹے سے دریچہ پر
دونوں پٹ جوں ہی کھولے
نسیم سی ہوا آئی سورج کی کرن لےکر
تم ہی سا سکوں ہے اس ریح کا چھونا
کرن بھی تم ہی جیسی روشن سی لکیر ہے
کہا تھا نا!ارے لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں اس چائے کے کپ پر
یاد آیا چائے کے بہت دیوانے ہو تم
وعدہ ہے پلاؤں گی رات کے آخری پہر میں چائے
میری باتیں،ایک ہی کپ،میں اور تم
اف پاگل کہا تھانا! کہ تم لکھو اس کے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں ہاتھوں کی لکیروں پر
اک دن ہتھیلی کو حسرت سے دیکھا تھا تم نے
کیا ان لکیروں میں تمہارا ساتھ لکھا ہے؟
ہاتھوں کی لکیریں تو اکثر جھوٹ بولتی ہیں
لکیریں چوم کر میں نے! کہا کہ رب سے مانگو
لکیریں بدلتی رہتی ہیں
سدھر جاؤ! کہا تھا نا کہ تم لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں بل میں لپٹے ان کپڑوں پر
اکثر تم دیر سے آتے تھے
وجہ معلوم ہوتی جو! شرٹ استری کرتے تھے
عہد ہے تم سے یہ استری میں ہی کر دونگی
تم وقت پہ تیار ہو جانا پھر
ارے لڑکی! کہا تھا نا کہ تم لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں ٹوٹےاس بال پر
کھانے میں بال آ جائےکتنا ناگوار ہے تمہیں
خیر خیال رکھوں گی سر ڈھانپ رکھوں گی
مگر تمہیں لمبے بال بھی تو پسند ہیں نا
تم چھو بھی لینا تم مس بھی کر لینا
اچھا سنو! اب تو لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں خوشبو کے ذکر پر
تمہاری خوشبو دل و دماغ میں رچ بس گئی ہےیوں
جہاں جاؤں جو بھی کروں تم محسوس ہوتے ہو
اس احساس میں میری آنکھوں سے اکثر
آنسو بہہ جاتے ہیں مگر کبھی تو ہوگے
آنسو صاف کر دوگے
بتاؤ نا میں کیسے لکھوں؟ اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا ہے اب چلو لکھوں کاغذ کے اس ٹکڑے پر
کاغذ کے ٹکڑے پر قلم بھی تو چلتا ہے
قلم سے یقینا دستخط بھی ہوتا ہے
خواب میں دیکھا ہے اس کاغذ کے ٹکڑے کو
کہ زندگی کے ہر حصے میں
تمہیں میں نے قبول لکھا ہے
چلے آؤ نا اب تم،انتظار میں ہوں میں
اس بار جو تم آؤ! جانے نہیں دونگی
کاغذ کے اس ٹکڑے پر تمہیں اپنا ہی لکھوں گی
کیا کروں؟ کیسے لکھوں اسکے ذکر سے ہٹ کر؟
ہر چیز سے اسی کا عکس جڑا ہے
لو رکھا قلم ہٹائے ہاتھ کہ
اسکے ذکر سے ہٹ کر مجھ سے لکھا نہیں جاتا
چھوڑو نا! مجھ سے لکھا نہیں جاتا
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






