سوچا نہ تھا کہ مُلاقات ہوگی
باتوں باتوں میں دل کی بات ہوگی
یادیں تمھاری اور آنسو ہیں
جانے کب ختم یہ برسات ہوگی
سوتے تھے بے خبر زمانے سے
اتنی لمبی ہجر کی رات ہوگی
مصلحتیں اور رسم دُنیا کے تقاضے
خُدا جانے پھر کب مُلاقات ہوگی
بڑا نہیں، چھوٹا سا آدمی ہوں
تم کو بہت توقعات ہوں گی