سوچوں کی رسی تھامے کس جہاں میں آ گئی
پھولوں کی چار دیواری آنگن میرا مہکا گئی
غم کی کوئی پرچھائی نہیں خوشیاں بے حساب ہیں
من چاہا ہمسفر اور سرشاری سی ہم پہ چھا گئی
چلوں میں ہاتھ تھامے اُس آتشِ شوق کا
منزل میری سہانی رستوں کا لطف بڑھا گئی
مجھے خاک نہ کر دے میرے نفس کا غرور
مست ہوں اپنے گلستاں میں خماری سی چھا گئی