سوچو تو نتیجہ کوئی نہیں
Poet: sangla hill By: muhammad nawaz, sangla hillہم دیوانوں کی دنیا کے
دستور نرالے ہوتے ہیں
چہرے پہ سجا کے خوشیوں کو
غم دل میں پالے ہوتے ہیں
تم کیا جانو ان لوگوں کو
تم کیا سمجھو ان روگوں کو
جن روگوں کا اس دنیا میں
اب دست مسیحا کوئی نہیں
ان لوگوں کو تم کیا جانو
ان لوگوں کو تم کیا سمجھو
کہ جن کے دکھتے سینے میں
پانے کی تمنا کوئی نہیں
وحشت کے تقاضے سارے ہیں
حاصل کا تقاضہ کوئی نہیں
ان عشق کے مارے لوگوں کے
دکھوں کا مداوہ کوئی نہیں
یہ کرچی کرچی پرتو ہیں
تکمیل سراپا کوئی نہیں
تم چلنا چاہو سنگ ان کے
کچھ رستہ تو چل سکتے ہو
لیکن منزل کے دھوکے میں
انکے ہاتھوں میں ہاتھ نہ دو
سن لو انکی ساری باتیں
سب لفظ سجا لو سینے میں
ہاں لیکن میری بات سنو
انکا وحشت میں ساتھ نہ دو
انکی وحشت وہ وحشت ہے
کہ جس کا کنارہ کوئی نہیں
دیکھو تو یہ ہیں سارا عالم
سوچو تو نتیجہ کوئی نہیں
پہلے دیوانے لوگ کے نام سے انگلش میں ارسال کی جا چکی ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






