چاند کو دیکھ کے آئے ہیں ستارے واپس
کردیئے ہم نے سمندر کو کنارے واپس
ہم بھی سر پہ نہیں رکھتے ہیں کسی کا احساں
سُود کے ساتھ یہ لو قرضے تمہارے واپس
نم نگر رہنے کو آئی ہے جو وہ ذات لطیف
محفلیں پھر سے سجانے لگے تارے واپس
کوئی تو بات ہے پوشیدہ وہاں پر کہ جہاں
جو چلا جائے جو آتا نہیں پیارے واپس
رب نےانسان کو جو تخت خلافت بخشا
خبط ابلیس کو ہے تب سے اتارے واپس
انکے عارض کا بھی دیدار ضروری ہے مگر
زلف جو بگڑے تو پھر کون سنوارے واپس
میری بے تابیء دل کو ہی فقط دوش نہ دو
چشمِ جاناں بھی تو کرتی تھی اشارے واپس
سر چڑھا جن کے مئے نخوت و غفلت کا نشہ
وقت نے ایسے بہت لوگ سدھارے واپس
جس پہ اسوار جنوں ہوتا تھا پڑھنے کا کبھی
منہ پہ وہ مار گیا آج شمارے واپس
لب پہ اک حرف شکایت بھی جو آئے کہنا
جب بھی آؤ گے مری راہ میں پیارے واپس
مفتی ہاتھوں سے لکھے نامے جو مانگے اس نے
زیست کے ہم نے کئے سارے سہارے واپس