سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے
پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے
بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے
گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے
کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب
اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے
کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی
اُمّیدِ وصل اِس کا لُبادہ کیے ہُوئے
اُن سے حیات و مرگ کا اب فیصلہ بھی ہو
بیٹھے ہیں دل ہم اپنا کُشادہ کیے ہُوئے
ویسے تو بارہا کہا اُن کو بُرا، خلش
شرمندہ، رُو برُو ہُوں اعادہ کیے ہُوئے