ہوگی پُر نور تیرے دم سے میری عُمرِ رواں
ہوگی حیات میری تیرے سبب جاویداں
اُمیدِ وصل پہ کٹتے ہیں میرے شام و سحر
تیرے وجود کا چاہتا ہوں خود پہ سائباں
تمنّا شدّتِ غم میں بھڑکتی اور بھی ہے
مُطمئن ہوگا تیرے مِلنے سے دلِ ناداں
لاکھ اعذار تیرے مُجھ کو ستاتے ہیں مگر
بَا خُدا دل تیری وفا پہ پھر بھی ہے نازاں
مُنتظِر آنکھوں کا ہو جائے انتظار ختم
تڑپ کے ہو گئیں ہیں تیرے بنا آبِ رواں
بتائے کیسے تُجھے دل کی کیفیت حیدر
ہجر کی سیف سے مقتول بنا ہے جاناں