شاخوں پہ وہ پھر ایک خبر چھوڑ گئے ہیں
پنچھی بھی محبت کی نظر چھوڑ گئے ہیں
بدلے ہوئے موسم میں خزاؤں کی جھلک ہے
خواہش کے پرندے جو شجر چھوڑ گئے ہیں
کچھ لوگ ہیں بھٹکے ہوئے ماضی کی فضا میں
لوٹ آئیں گے اک روز اگر چھوڑ گئے ہیں
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
آنکھوں میں خزاؤں کا اثر چھوڑ گئے ہیں
مجبور سہی وقت سے ہاری جو ہوئی ہوں
وہ بھی تو مرے دل کا نگر چھوڑ گئے ہیں
یہ عشق کے شعلے بھی عجب چیز ہیں وشمہ
بے تاب ، حزیں دل پہ اثر چھوڑ گئے ہیں