شام غم ہے تری یادوں کو سجا رکھا ہے
میں نے دانستہ چراغوں کو بجھا رکھا ہے
اور کیا دوں میں گلستاں سے محبت کا ثبوت
میں نے کانٹوں کو بھی پلکوں پہ سجا رکھا ہے
جانے کیوں برق کو اس سمت توجہ ہی نہیں
میں نے ہر طرح نشیمن کو سجا رکھا ہے
زندگی سانسوں کا تپتا ہوا صحرا ہی سہی
میں نے اس ریت پہ اک قصر بنا رکھا ہے
وہ مرے سامنے دلہن کی طرح بیٹھے ہیں
خواب اچھا ہے مگر خواب میں کیا رکھا ہے
خود سناتا ہے انہیں میری محبت کے خطوط
پھر بھی قاصد نے مرا نام چھپا رکھا ہے
کچھ نہ کچھ تلخئ حالات ہے شامل رزمیؔ
تم نے پھولوں سے بھی دامن جو بچا رکھا ہے