شام ہوتے ہی مرا درد سوا ہو جاۓ
کاش یوں ہو مرا احساس فنا ہو جاۓ
اُس کو محسوس کروں چھوُ نہ سکوں پر اُس کو
کہیں ایسا نہ ہو وہ شخص خدا ہو جاۓ
زہر بن کر جو گھلا جاۓ مری سوچوں میں
ہو بھی سکتا ہے وہی درد دوا ہو جاۓ
ڈوب کر توُ کبھی اُبھرے نہ مری آ نکھوں سے
کتنا اچھا ہو جو یوں جانِ وفا ہو جاۓ
تان دینا تو مرے سر پہ وفا کا آ نچل
جو مرا سر کبھی محرومِ ردا ہو جاۓ
ہم نہیں کرتے وفا کیشی کا دعو یٰ لیکن
جان جاتی ہے جو وہ ہم سے خفا ہو جاۓ
وہ بھی اِنساں ہے فرشتہ تو نہیں ہے عذراؔ
بخش دینا جو کبھی اُس سے خطا ہو جاۓ