میری توقیر تھا اب باعث تحقیر ہوا
ایک ہی شخص مرے نام کی تشہیر ہوا
اس کے صدموں کو عیاں کرنے لگا بن چاہے
میرے اشعار میں جو حرف بھی تحریر ہوا
اب کسی اور طرف میرے قدم اٹھتے نہیں
کیسی وہ شخص مرے پاؤں کی زنجیر ہوا
لوگ کہتے ہیں اداسی ہے مری آنکھوں میں
واقعہ کس کے بچھڑنے کا یوں تصویر ہوا
جو تھے مفلس وہ محبت کو عیاں کر نہ سکے
شاہ کا تاج محل پیسوں سے تعمیر ہوا
حکمرانی تو سدا ہی سے محبت کی رہی
زور بازو سے تو دل کوئی نہ تسخیر ہوا
تجھ کو معلوم نہیں آج بھری محفل میں
کتنا اک شخص تری با توں سے دل گیر ہوا
جھوٹ کہنے پہ زمانے نے سراہا مجھ کو
بات جب حق کی کہی لائق تعزیر ہوا
اس کے دل میں بھی تمنا ہے مجھے ملنے کی
آ تو جاتا مگر وقت عناں گیر ہوا
تم رواں کہتے ہو ہر ایک غزل پر زاہد
اس روانی میں تو استاد فقط “ میر “ ہوا