شبِ تنہائی کے اندھیرے
ان لمحوں میں
اب کہ یوں ہے جاناں
کہ
بے جان سسکیاں
لبوں پہ دم توڑ رہی ہیں
کہ اب کے جاناں
تیری یادوں کی زنجیروں سے
آزاد جیسے موت کی دہلیز کو پار کررہی ہوں
کہ اس شبِ تنہائی کی تاریکی
میرے بےجان وجود کی رگ و پے میں
سرایت کر تی ایسے رقصاں ہے
کہ جیسے صدیوں سے یہ یہاں کی مکیں ہو
کہ شبِ تنہائی کی ان گھڑیوں میں
اب کہ جاناں
آنکھوں نے جیسے پتھر ہونا سیکھ لیا ہو
کہ اب کہ اس شبِ تنہائی میں
دل نے جیسے مرنا سیکھ لیا ہو
کہ اب کے جاناں
وحشتوں کی ان گھڑیوں میں
تجھے بھولنے کا
کوئی بہانہ سیکھ لیا ہو
کہ اب کی اس
شبِ تنہائی میں