شبِ نصف میں بچھا کے ترے خیال کا آنچل
رویا ہوں میں پکڑ کے اپنے حال کا آنچل
میری مُٹھی سے پھسل گیا بے فائدہ دسمبر
میری اُمیدوں نے تھام لیا نئے سال کا آنچل
قید ہو گئے جب فراق میں جذبوں کے پنچی
منہ کو چھپانے لگے لے کے جال کا آنچل
افلاک میں جب اُڑنے لگے درندوں کے جُھنڈ
میں نے بچاؤ کے لئے ڈھونڈا پاتال کا آنچل
میں وفاؤں کا لباس پہنے رکھتا تھا بڑی سادگی سے
وہ بے وفا بہت بدلتا تھا چال کا آنچل
مجھ سے نہ دیا جائیگا جواب حشر کے روز
الہٰی ! فیصلہ سنانا اپنا بنا کھولے سوال کا آنچل
اے جاناں ! یقیناًپچھتاؤ گے ہو کے جدا مجھ سے
تم کرو گے تلاش دھوپ میں نہالؔ کا آنچل