شب فراق میں تجھے پُکارا ہے اکثر
یخ بستہ ہوائیں
شدت میں ڈوبے احساس
بے ربط سوچوں میں
تیرا ہی احساس ان میں پایا ہے اکثر
اک آس و انتظار کے لمحات میں گزرا ہے دسمبر
نیا سال بھی نہ لایا
دل چمن میں گُل بہار یکسر
اُمیدوں کے سائے
تو دُھندلا سے گئے ہیں
نا اُمیدی کے قفس میں خود کو قید پایا ہے اکثر
کبھی رُوبرو ہو جو میرا صنم
بتاؤں اُسے دکھاؤں اُسے
بنا اُس کے میرا حال دل ہے ابتر
میرے احساس محبت میں ڈوب کر
لوٹ آئے گا اک دن میرا ہمسفر
بارہا دل کو ایسی تسلی دی ہے اکثر