شدتِ درد سے راحت ملی مجھے
ایک بددعا سے شفاعت ملی مجھے
سجا ہے جاں تیری تصویروں سے گھر
آ دیکھ کتنی حسیں تربت ملی مجھے
میں ایک ہی تو دعا کو ڈھونڈ رہا تھا
مگر ہر آس میں فرقت ملی مجھے
امیرِ شہر تیرے شہرِ امیر میں
بہ خدا ہر گلی میں غربت ملی مجھے
لفظ الوداع میں ہزار ہجر ہی سہی
لہجہِ جاناں سے محبّت ملی مجھے
احسن میں کچھ اور بھی کرلوں مگر
تیرے عشق سے کب فرصت ملی مجھے